ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے، آتے ہیں جو کام دوسرں کے

ہمارے گاؤں میں ایک عظیم کراٹے مقابلہ ہونے والا تھا، جس کا جیتنے والے کے لئے دس لاکھ روپے انعام رکھا گیا تھا۔ میں اس مقابلے کے لئے دن رات محنت کر رہا تھا، میں اس مقابلے کے لئے دل وجان سے محنت میں مصروف تھا۔ میرے دل میں ایک عجیب سی خوشی اور جوش تھا، کیونکہ میں نے جو لگن سے تیاری کی تھی، وہ میرے یقین میں بدلتی جا رہی تھی کہ جیت میری ہوگی۔ مگر دل کے کسی کونے میں خالد کا خوف چھپا تھا، جو اس کھیل کا ماہر اور کئی انعامات کا فاتح تھا۔

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے، آتے ہیں جو کام دوسرں کے knarticle

خالد کا نام سن کر ہی لوگوں کے دلوں میں ایک ہیبت پیدا ہوتی تھی۔ وہ ہمیشہ کا فاتح رہا تھا اور میں جانتا تھا کہ وہ اس بار بھی میدان میں اترے گا۔ میری محبت کراٹے سے تھی، مگر شاید میری جیت کی خواہش نے اس محبت کو خود غرضی میں بدل دیا تھا۔ دن رات کی بے چینی میرے اندر بس یہی سوال دہراتی تھی کہ کیا میں اس بار بھی خالد کو شکست دے پاؤں گا؟

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے، آتے ہیں جو کام دوسرں کے knarticle


آخر وہ دن آ ہی گیا۔ گاؤں کے تمام لوگ مقابلہ دیکھنے آئے تھے۔ میری سانسیں تیز ہو رہی تھیں، لیکن جیسے ہی میں نےخالد کو دیکھا، اس کے چہرے پر ایک اداسی کی لہر تھی۔ یہ وہ چہرہ نہیں تھا جس سے میں مقابلہ کرنے آیا تھا۔ مقابلہ شروع ہوا، ہر ضرب، ہر وار میں میرا دل تیز دھڑکنے لگا، مگرخالد کی کمزوری نے میرے دل میں سوال اٹھا دیے۔

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے، آتے ہیں جو کام دوسرں کے knarticle


میں نے مقابلہ جیت لیا، مگر یہ جیت مجھے مطمئن نہ کر سکی۔ میرا دل خالدکی طرف کھنچتا چلا گیا۔ مقابلہ ختم ہونے کے بعد میں نے ہمت کر کے پوچھا، "خالد، تم اتنے کمزور کیسے لگ رہے تھے؟ کیا ہوا ہے؟"

خالد نے آنکھوں میں درد اور بے بسی لیے کہا، "میری ماں بیمار ہے، اور مجھے شہر لے جا کر اس کا علاج کروانا ہے، مگر میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس مقابلے میں حصہ لیا تھا تاکہ جیت کر پیسے حاصل کر سکوں، مگر ماں کی دیکھ بھال میں تیاری نہیں کر سکا، اسی لئے ہار گیا۔"

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے، آتے ہیں جو کام دوسرں کے knarticle


اس کی بات سن کر میرا دل ٹوٹ گیا۔ غصہ اور حسد جو میرے اندر پل رہا تھا، ایک دم محبت اور ہمدردی میں بدل گیا۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے اپنے جیتے ہوئے دس لاکھ روپے خالدکو دے دیے۔ پہلے تو اس نے انکار کیا، مگر میرے اصرار پر وہ مان گیا۔

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے، آتے ہیں جو کام دوسرں کے knarticle


اس لمحے میں نے محسوس کیا کہ سچی خوشی جیت میں نہیں، بلکہ کسی کی مدد کرنے میں ہے۔ آج میں نے محبت اور انسانیت کا سبق سیکھا تھا، اور یہ میرے لیے دنیا کا سب سے بڑا انعام تھا۔

Post a Comment

Asslam o Alaikum!
Thanks for visiting the blog and commenting, what do you miss about the blog? Be sure to share your valuable feedback. Your opinion is a beacon for us.
Thanks

Previous Post Next Post

POST ADS1

">Responsive Advertisement

POST ADS 2

">Responsive Advertisement