خوابوں کی ربڑ: بچپن کی یادیں از گل نوخیز اختر

 یہ کہانی ایک ربڑ کے گرد گھومتی ہے جو صرف ایک ربڑ کی نہیں بلکہ محبت قربانی اور بچپن کی انمول یادوں کی ہے۔ جہاں ایک ربڑ کا خواب ایک معصوم بچے کے دل میں امیدوں کا چراغ جلا دیتا ہے اور والد کی محبت اسے پورا کرکے اسکی دنیا میں خوشیوں کا رنگ بھر دیتی ہے۔ 

 خوابوں کی ربڑ: بچپن کی یادیں از گل نوخیز اختر knarticle
گل نوخیز اختر کی یہ کہانی 1978ء کی ایک یادگار گرم دوپہر کی ہے جب میری زندگی میں پہلی بار خوابوں کی جادوئی دنیا کا دروازہ کھلا۔ ملتان کے ایک پرانے پرائمری اسکول کے "پکی جماعت" میں داخل ہوا تھا، جہاں صبح کے وقت گلیوں میں ماشکی چھڑکاؤ کرتے، اور ہم بستے اور تختیاں تھامے اسکول جایا کرتے تھے۔ میرا بستا لنڈے سے لیا گیا تھا، جس میں دو جیبیں تھیں، جو اس زمانے میں کسی "سیٹھ" کے بچے ہونے کی علامت تھیں۔ وہ چادر، جسے میری ماں نے کمال مہارت سے میرے بیٹھنے کے لیے دیا تھا، میرے لیے تختی صاف کرنے کا کام بھی دیتی تھی۔

 

پہلی بار خواب میں ربڑ دیکھنے کی خوشی نے میرے دل میں ایک انوکھا جوش بھر دیا تھا۔ رات کے چار بجے جب میری آنکھ کھلی، ہر طرف ربڑ ہی ربڑ دکھائی دیا۔ دل میں اس خیال نے گھر کر لیا کہ کاش میرے پاس 

بھی ایک ربڑ ہو جس سے میں اپنی غلطیوں کو مٹا سکوں۔


 اس دن میرا دل اور دماغ کہیں اور بھٹک رہا تھا۔ پاس ہی ابا جی کچی زمین پر بیٹھے اپنی ہوائی چپل کی مرمت میں مصروف تھے۔ چپل پر اتنے ٹانکے لگ چکے تھے کہ اب مزید جگہ نہ تھی، مگر لگتا تھا کہ ابا جی کو اس چپل سے ایک خاص انسیت تھی، اسی لیے وہ ہر چند دن بعد اسے سنوارنے بیٹھ جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے ان کے پاس ایک پرانے، خاکی رنگ کے بغیر تسموں کے بوٹ بھی تھے، جو مجھے زیادہ پسند تھے۔ میں اکثر ضد کرکے انہیں بوٹ پہننے پر مجبور کرتا۔ ابا جی میری بات مان لیتے اور کچھ دیر بوٹ پہنے رہتے، پھر مسکراتے ہوئے انہیں اتار دیتے اور کہتے، "یار، یہ مجھے بہت چبھتے ہیں۔

 

سکول جانے کا وقت ہوا تو ماں جی نے بڑے پیالے میں چائے ڈال کر اس میں پراٹھے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ملا دیے۔ یہ میرا پسندیدہ ناشتہ تھا، لیکن میرا دماغ اس ربڑ کی فکر میں الجھا رہا۔ آخرکار، ابا جی سے کہا "مجھے ربڑ لینا ہے"۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا "ابھی تم تختی لکھتے ہو، ربڑ تو چوتھی جماعت کے بچوں کا ہوتا ہے"۔ لیکن میرے دل میں ربڑ کی خواہش نے مجھے ضدی بنا دیا۔

 

اس دن، سکول میں جب میں نے اپنے دوست "جیرے" کے پاس ربڑ دیکھا، میری حسرت اور بڑھ گئی۔ اس کا ربڑ ہاتھ میں آتے ہی میرے اندر حسد کی آگ بھڑک اٹھی۔ جیرے کی ربڑ کو، میں نے  چپکے سے چبا کر ریزہ ریزہ کر دیا۔ وہ دن میرے لیے ایک بڑا سبق بن گیا، کیونکہ میں جیرےنے جب اپنی ربڑ کو ریزہ ریزہ حالت میں دیکھا تواس کے رونے، سسکنے اور  چیخوں کو آج تک نظرانداز نہیں کر سکا۔

 

میرے ضدی رویے نے میری جسمانی صحت پر بھی اثر ڈالا اور میں ٹائفائیڈ کا شکار ہو گیا۔ کئی دنوں تک ماں جی کی دعاؤں اور ابا جی کے دم کیے ہوئے پانی نے مجھے زندہ رکھا۔ ایک دن، ابا جی نے پیار سے پوچھا "کیا چاہتا ہے؟" میں نے بے ساختہ کہا "مجھے ربڑ چاہیے"۔ ابا جی نے وعدہ کیا کہ جب میں ٹھیک ہو جاؤں گا، وہ مجھے ربڑ دلائیں گے۔

 

اور پھر وہ دن آیا جب میں دو  ،ربڑوں کے ساتھ اسکول پہنچا، بڑے اور خوبصورت رنگیلے ربڑ جنہیں دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔ لیکن میری ان ربڑوں نے کاغذ کی لکیریں مٹانے کے بجائے کاغذ ہی پھاڑ دیا۔

 

سالوں بعد، جب میں خود باپ بن چکا تھا، ایک دن بچپن کی وہ یادیں پھر سے دل میں تازہ ہو گئیں۔ میں نے ہمت کر کے ابا جی سے وہی سوال پوچھ لیا جو برسوں سے میرے ذہن میں تھا: "ابا جی، وہ ربڑ آپ کہاں سے لائے تھے؟" ابا جی نے پہلے تو بات ٹالنے کی کوشش کی، لیکن اس بار ان کا سامنا ایک ایسے باپ سے تھا جو تعلیم، تجربے اور وسائل میں ان سے کہیں آگے تھا۔ اب ان کے لیے بات گول کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ جب میں نے دوبارہ ضد کی، تو ان کی آنکھوں کے گوشے نم ہو گئے۔ انہوں نے جلدی سے اپنی قمیض کی آستین سے آنسو پونچھے، دھیرے سے مسکرائے اور بولے، "یار! وہ ہوائی چپل واقعی بہت پرانی ہوگئی تھی۔" ان کی بات سن کر میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اورمجھے حیرت کے اس شدید جھٹکے کی وجہ سےربڑ کی طرح اچھل کر کھڑا ہونا پڑا۔ 

Post a Comment

Asslam o Alaikum!
Thanks for visiting the blog and commenting, what do you miss about the blog? Be sure to share your valuable feedback. Your opinion is a beacon for us.
Thanks

Previous Post Next Post

POST ADS1

">Responsive Advertisement

POST ADS 2

">Responsive Advertisement