دس سالہ سرفراز کی قربانی: بہن کے لیے دنیا بدلنے کی کہانی

 سرفراز ایک 10 سالہ یتیم لڑکا تھا، جس کی زندگی میں سختیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس کی 4 سالہ بہن ماریہ، معصوم اور بےخبر، سرفراز کے لیے دنیا کی سب سے قیمتی شے تھی۔ دونوں کے والدین ایک حادثے میں انتقال کر گئے تھے، اور اب وہ غربت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ مگر ان کی غربت محض پیسے کی کمی تک محدود نہیں تھی؛ یہ غربت وہ دکھ اور تکالیف تھیں جو سرفراز اور ماریہ کو ہر دن جینے پر مجبور کرتی تھیں۔

 

سرفراز کی قربانی: بہن کے لیے دنیا بدلنے کی کہانی knarticle

سرفراز کے اندر ایک عجیب سی ہمت اور جرات تھی۔ باوجود اس کے کہ وہ عمر میں صرف 10 سال کا تھا، وہ کبھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنے والدین سے سیکھا تھا کہ عزت نفس کی قیمت سب سے زیادہ ہوتی ہے، اور اسی وجہ سے وہ ہمیشہ محنت سے اپنا اور اپنی بہن کا پیٹ پالتا تھا۔

 

ہر صبح، سرفراز اپنے چھوٹے سے گاؤں کے بازار میں مزدوری کی تلاش میں نکلتا۔ کبھی کسی کا سامان اٹھاتا، کبھی کسی دکان میں چھوٹا موٹا کام کر دیتا، اور جو تھوڑے بہت پیسے ملتے، ان سے وہ ماریہ کے لیے کچھ کھانے کی چیزیں خرید لیتا۔ ماریہ کو سرفراز کے پاس آنے کی دیر ہوتی اور اس کے چہرے پر خوشی کی جھلک نمایاں ہو جاتی۔ وہ سرفراز کو اپنا ہیرو سمجھتی تھی، اور اس کا ہر دن اپنے بھائی کی محنت کی کہانی سے شروع اور ختم ہوتا۔

 

سرفراز اکثر رات کو سوتے وقت اپنے والدین کو یاد کرتا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے، لیکن وہ خود کو مضبوط رکھتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اب ماریہ کا واحد سہارا ہے۔ وہ اپنے دل میں عزم رکھتا تھا کہ وہ ماریہ کو ایک بہتر زندگی دے گا، چاہے اسے کتنی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔

 

ایک دن، جب سرفراز بازار میں مزدوری کر رہا تھا، اسے ایک بڑے آدمی نے بلایا۔ یہ آدمی گاؤں کا امیر ترین تاجر "حسین صاحب" تھا، جو اپنی دولت اور غرور کی وجہ سے مشہور تھا۔ حسین صاحب نے سرفراز کو دیکھا اور کہا، "تمہیں اپنے جیسے کمزور لڑکے کے لیے اتنی محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ آؤ، میرے ساتھ کام کرو، میں تمہیں زیادہ پیسے دوں گا، لیکن تمہیں میرے آگے ہاتھ جوڑنے ہوں گے اور ہر وقت میری بات ماننی ہوگی۔"

 

یہ سن کر سرفراز کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا، مگر وہ خاموش رہا۔ اس کے دل میں عزت نفس کی اہمیت تھی اور وہ کبھی اپنی غیرت کو بیچنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے حسین صاحب کی باتوں کا جواب نہ دیا اور وہاں سے چپ چاپ چلا گیا۔

 

شام کو جب وہ گھر پہنچا، تو ماریہ بھوکی تھی اور اس کا چہرہ مرجھا چکا تھا۔ سرفراز کے پاس پیسے کم تھے، اور وہ یہ دیکھ کر بےحد افسردہ ہوا۔ اس نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ کبھی ماریہ کو بھوکا نہیں سونے دے گا۔ وہ ایک نئی امید کے ساتھ اگلی صبح پھر سے محنت کرنے نکلا۔

 

اسی دوران، گاؤں کے ایک بڑے میلے کا اعلان ہوا۔ اس میلے میں دور دور سے لوگ آتے تھے اور مختلف قسم کے کام کاج کرنے والوں کی خدمات حاصل کرتے تھے۔ سرفراز نے سنا کہ میلے میں مزدوری کرنے والوں کو اچھی اجرت ملتی ہے۔ اس نے فوراً فیصلہ کیا کہ وہ وہاں جائے گا اور وہاں سے زیادہ پیسے کمائے گا تاکہ ماریہ کے لیے بہتر زندگی فراہم کر سکے۔

 

میلے میں پہنچ کر سرفراز نے دیکھا کہ وہاں کئی امیر لوگ آئے ہوئے تھے، لیکن کام کرنے والوں کی کمی تھی۔ سرفراز نے فوراً کئی لوگوں کے لیے کام شروع کر دیا۔ وہ بھاگ بھاگ کر کام کر رہا تھا، اور سب لوگ اس کی محنت اور جرات سے متاثر ہو رہے تھے۔ اس نے بہت سارے پیسے کما لیے اور دل میں خوشی محسوس کی کہ وہ اب ماریہ کے لیے بہتر کھانا خرید سکے گا۔

 

جب میلہ ختم ہوا تو ایک معزز خاتون "بیگم عالیہ" نے سرفراز کو بلایا۔ وہ ایک نیک دل اور سمجھدار عورت تھی، جو غریبوں کی مدد کرتی تھی۔ بیگم عالیہ نے سرفراز سے کہا، "بیٹے، میں نے تمہاری محنت اور ایمانداری دیکھی ہے۔ تم بہت بہادر ہو کہ اس چھوٹی عمر میں بھی اپنی بہن کا خیال رکھ رہے ہو۔ میں تمہاری مدد کرنا چاہتی ہوں۔"

 

سرفراز نے سر جھکا کر کہا، "شکریہ بیگم صاحبہ، لیکن میں کسی کی مدد پر بھروسہ نہیں کرتا۔ میں اپنے ہاتھوں سے محنت کرکے اپنا اور اپنی بہن کا پیٹ پالنا چاہتا ہوں۔"

 

بیگم عالیہ مسکرائی اور کہا، "محنت کا راستہ ہمیشہ بہترین ہوتا ہے، لیکن کبھی کبھی ہمیں کسی کی مدد قبول کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنی محنت کو بہتر سمت میں لے جا سکیں۔ میں تمہیں کام دینا چاہتی ہوں تاکہ تم اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑے ہو سکو۔"

 

سرفراز نے کچھ لمحوں کے لیے سوچا اور پھر بیگم عالیہ کی پیشکش قبول کر لی۔ وہ جانتا تھا کہ یہ موقع اس کی اور ماریہ کی زندگی کو بدل سکتا ہے۔

 

بیگم عالیہ نے سرفراز کو اپنی بڑی دکان میں ملازمت دی، جہاں وہ روزانہ مختلف کام کرتا اور نئے ہنر سیکھتا۔ سرفراز کی محنت اور ذہانت نے اسے دن بدن کامیاب بنایا۔ اس نے کچھ ہی عرصے میں نہ صرف خود کو بلکہ ماریہ کو بھی بہتر زندگی فراہم کی۔

 

وقت گزرنے کے ساتھ، سرفراز نے اپنی محنت اور جرات کی بدولت ایک کامیاب کاروبار شروع کیا اور گاؤں کے لوگوں میں عزت و احترام حاصل کیا۔ وہ اب نہ صرف اپنی بہن کا خیال رکھ رہا تھا، بلکہ گاؤں کے دیگر یتیم بچوں کی بھی مدد کرنے لگا تھا۔

 

سرفراز کی کہانی ایک مثال بن گئی کہ کیسے ایک غریب یتیم لڑکا، جس نے کبھی ہار نہیں مانی، اپنی محنت اور عزت نفس کی بدولت زندگی کی تمام مشکلات کو شکست دے سکتا ہے۔ سرفراز اور ماریہ کی محبت اور جرات نے انہیں نہ صرف کامیابی دی بلکہ ان کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے ایک روشن امید جگا دی۔

 

Post a Comment

Asslam o Alaikum!
Thanks for visiting the blog and commenting, what do you miss about the blog? Be sure to share your valuable feedback. Your opinion is a beacon for us.
Thanks

Previous Post Next Post

POST ADS1

">Responsive Advertisement

POST ADS 2

">Responsive Advertisement