ڈائنو سار کی بیداری، چھوٹے گاؤں کا بڑا راز

 ایک بلند پہاڑی کی بلند چوٹی پر ایک چھوٹا سا قصبہ آباد تھا۔ یہ قصبہ خوبصورت تو بہت تھا لیکن دور، پہاڑ پر روزآنا جانا بہت مشکل تھا مگریہ  ان لوگوں کا گھر اور ان کی زندگیوں کا مرکزتھا۔ وہ پہاڑی، جہاں یہ قصبہ صدیوں سےیہاں آباد تھا، وہاں کچھ غیر معمولی واقعات رونما ہونے شروع ہو گئے۔

چھوٹا قصبہ، بڑا راز، ڈائنوسار کی بیداری knarticle

کبھی درختوں کی شاخیں بے قابو ہو کر ہلنے لگتیں، اور مکان ایسے ڈولنے لگتے جیسے انہیں کسی بہت بڑے زلزلے نے جکڑ لیا ہو۔ خوف سے ڈرے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ فوراً یہاں سے بھاگ جانا چاہیے۔ ایک لمحے میں پورا قصبہ بھاگتا ہوا چوٹی سے نیچے اترنے لگا۔ ہر چہرے پر خوف کے سائے تھے، اور لوگ اندھا دھند اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔

 

مگر، ایک لڑکا جس کا نام خالد تھا، اس وقت بالکل مختلف سوچ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف کی جگہ تجسس تھا، اور دل میں سوالات۔ وہ لڑکا، جو ہمیشہ ہر چیز کی حقیقت جاننے کا شوقین تھا، بھاگنے کی بجائے ایک چٹان پر جا بیٹھا، چوٹی کے تھوڑا نیچے۔ اُس کا دل چاہتا تھا کہ وہ دیکھے، آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟

 

خالد کے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی، لیکن وہ رکا رہا۔ کچھ وقت بعد، جو ہوا اس نے اس کے دل کو دھڑکنے پر مجبور کر دیا۔ قصبہ نہ تو نیچے گرا، نہ ہی تباہ ہوا، بلکہ آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے لگا، جیسے بادلوں کی طرف سفر کر رہا ہو۔ وہ منظر ناقابل یقین تھا۔ پہاڑی کے نیچے ایک لمبی گردن نمودار ہوئی اور چار بڑی، طاقتور ٹانگیں زمین سے نکل آئیں۔

 

"یہ ایک ڈائنوسار ہے!" خالد نے حیرت سے کہا، اور اُس کی سانس رک گئی۔

 

یہ واقعی ایک عظیم الجثہ، سویا ہوا ڈائنوسار تھا، جس کے پیٹ پر پورا قصبہ بسا ہوا تھا۔ ڈائنوسار نے اپنی دھندلی آنکھیں کھول کر خالد کو دیکھا اور حیرت سے کہا، "تم تو بہت چھوٹے ہو!"

 

خالد نے دل مضبوط کرتے ہوئےمسکرا کر جواب دیا، "نہیں، تم بہت بڑے ہو!" لیکن ڈائنوسار نے جیسے اُس کی بات سنی ہی نہ ہو۔ وہ بے دھیانی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا، پھر اپنی لمبی گردن کو جھکایا اور بڑی سی جمائی لی۔اور  بولا "میں بہت تھک گیا ہوں..." ۔

 

خالد نے جلدی سے اسے بتانے کی کوشش کی کہ، "اسکے پیٹ پر ہمارا پورا قصبہ آباد ہے، تم نے شاید بہت لمبا عرصہ سونے کے بعد جاگے ہو !" لیکن ڈائنوسار کے چہرے پر کوئی تاثر نہ ابھرا۔نیند کے مارے اُس کی آنکھیں دوبارہ بند ہو گئیں، اور وہ گہری نیند میں چلا گیا۔

 

 ڈائنوسار کی حرکت ختم ہوئی، تو قصبے کے لوگ واپس آنا شروع ہو گئے۔ وہ حیران تھے کہ سب کچھ معمول پر آ گیا تھا۔ جب انہوں نے خالد سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا، تو اس نے ساری بات بتائی۔ لیکن کسی نے اس کی بات پر یقین نہ کیا۔ سب ہنس کر کہنے لگے، "تم  کوئی خواب دیکھ رہے ہو، !"

 

مگر خالد جانتا تھا کہ یہ خواب نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس پہاڑی نے کیسے حرکت کی اوریہ بڑے سوراخوں کسے وجود میں آئے ، جو زمین میں ڈائنوسار کے پنجوں کے نشان تھے۔ یہ راز صرف خالد کو معلوم تھا، اور شاید ہمیشہ اسی کے دل میں دفن رہے کیونکہ لوگ اس کی بات کو مذاق میں اڑا دیتے تھے اسلئے اس نے لوگوں کو بتلانا ہی چھوڑ دیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

 

یہ کہانی صرف اُس لڑکے کی نہیں ، بلکہ ہر اُس بے چین اور نڈر تجسس کی ہے جو ہر انسان کے دل میں کہیں نہ کہیں چھپا ہوتا ہے، جو اپنے خوف سے ڈرنے کے بجائے آگے بڑھ کر چیزوں کو کھوجتے ہیں اور ان کی حقیقت جان کر اپنے علم اور تجربے کو بڑھاتے ہیں۔

Post a Comment

Asslam o Alaikum!
Thanks for visiting the blog and commenting, what do you miss about the blog? Be sure to share your valuable feedback. Your opinion is a beacon for us.
Thanks

Previous Post Next Post

POST ADS1

">Responsive Advertisement

POST ADS 2

">Responsive Advertisement